زمرہ: غزلیات ۔شعروشاعری

غزلیات ۔ شغروشاعری

گلہ نہ کر دل ویراں کی ناسپاسی کا
ترا کرم بھی سبب بن گیا اداسی کا

ملول کر گئی ویران ساعتوں کی صدا
چمن میں جی نہ لگا جنگلوں کے باسی کا

بھرم کھلا ہے کہ جب اس سے ہم کلام ہوئے
ہمیں بھی زعم تھا پیارے سخن شناسی کا

شکست عہد کوئی ایسا سانحہ تو نہ تھا
تجھے بھی رنج ہوا بات اک ذرا سی کا

فراز آج شکستہ پڑا ہوں بت کی طرح 
میں دیوتا تھا کبھی اک دیو داسی کا
فراز


کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی

صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ

اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں

تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا

اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی

یا اس کے غم میں ٹوٹ کے رویا شراب پی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا

دکھ کا کوئی علاج نہیں ، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر

پھر جب تلک یہ عقدہ نہ سلجھا شراب پی
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے

اک روز اس فقیر کے گھر آ ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ

جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہوگیا فراز

شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی

 فراز

عجیب رات تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں ،اداس تھا وہ بھی

کسی کے شہر میں کی گفتگو ھواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی

ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گماں تھا یہ بھی ، قیاس تھا وہ بھی

کہاں اب غم دنیا کہ اب غم جاں
وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ راس تھا وہ بھی

فراز تیرے گریباں پہ کل جو ہنستا تھا
اسے ملے تو دریدہ لباس تھا وہ بھی

فراز