زمرہ: سیرو سیاحت

چترالی مسافروں کو پی آیی اے کے راولپنڈی آفس میں ٹکٹ کے حصول میں دشواری کا سامنا

PIA continues denying tickets to Chitral passengersپی آیی اےکی جانب سے چترالی مسافروں کو ٹکٹس دینے سے انکارکا سلسلہ جاری۔۔۔

Daily DAWN, Report Zar Alam Khan

ISLAMABAD: Some strong elements at the Rawalpindi office of Pakistan International Airlines (PIA) continue to deny tickets to intending passengers on the Islamabad-Chitral flights, causing hardship to the people and financial loss to the national flag-carrier. Talking to this correspondent on the phone, Chitral Tehsil Nazim Sartaj Ahmed Khan on Wednesday regretted that despite assurances by the higher authorities of PIA, no step had been taken to resolve the matter. 

He said some delegates coming to Chitral to attend a seminar were denied tickets by the PIA officials in Rawalpindi saying that seats were not available. However, he expressed the surprise that most of the seats on the flight remained vacant during the last couple of days. 
Chitralis living in the twin cities said the PIA officials always denied them tickets while flights were going to the valley almost empty. They said some elements in the office were cheating on the corporation and causing it huge losses while the high-ups had failed to take action against them. 


The Islamabad-Chitral service was launched in May 2007 to end the communication-related problems of the people of Chitral and promote tourism in the area. However, after about six months, the operation was suspended citing unavailability of enough passengers. Later, the service was re-launched but the PIA instead of encouraging the ticket-seekers created hurdles in the smooth operation of the service. 

People of Chitral living in the twin cities said PIA management had deliberately made it impossible for the passengers to get seats on the flights despite long queues of ticket seekers in its offices in Rawalpindi and Islamabad.

"Ever since the PIA started service on this route, there was a conspiracy from within the organisation itself to sabotage the service. Passengers are refused seats, while the planes are flying from Islamabad almost empty. Even chance tickets are refused to the passengers,” they said. On the other hand, flights from Chitral always remained full to capacity. 

When the 10,500-foot Lowari Pass closes for all types of traffic in winter due to snowfall, the people of Chitral used to travel through the lawless Kunar province of Afghanistan. However, this year the route will also remain out of bounds due to military operations in Bajaur and other areas of the province. People of Chitral have called upon the government to announce special package to end their communication problems till completion of the Lowari tunnel. 

پرندے اور ہماری زمین

ہر چیز کے حدودمقرر ہیں۔۔۔۔ اور وہ حسین و جمیل ہے ہماری سوچ سے !بڑھ کر۔۔۔۔۔

تحریر افسر خان چترالی

اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ وہ حسین و جمیل ہے ہماری سوچ سے بڑھ کر، اور ہماری عقل سے بڑھ کر اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے ۔قدرت کی تخلیق کردہ اس کائنات میں ہم بہت سے حسین مناظر کا نظارہ کرتے ہیں۔جن کو دیکھ ہمارا ایمان مضبوط اور پختہ ہوجاتا ہے۔ قدرت کے یہ حسین مناظر اللہ تعالیٰ کے ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ پرندے اللہ تعالیٰ کی حسین تخلیق ہیں،جو ہمارے ارد گرد کے ماحول میں بسیرا کرتے ہیںاور مکانوں درختوں پر اپنے گھونسلے بناتے ہیں او ر بہت دلکش اورخوبصورت انداز میں ہم ان کو دانہ چنتے ہوئے اور حرکت کرتے ہوئے دیکھ کر خود کو محظوظ کرتے ہیں۔پرندوں کی ہر جگہ موجودگی اور رنگا رنگی، ہوشیاری اور ان کی شوخی انداز ہم سب کے اندر ان کی مقبولیت کے لئے کافی ہیں۔ یہاں ہر آدمی پرندوں سے محبت کرتا ہے ۔ دنیا میں پرندوں کی کوئی 9703 قسمیں پائے جاتے ہیںاورپرندے عام طور پر ہر جگہ پائے جاتے ہیں، سمندر ہو یا جنگل، پہاڑ ہوں یا ریگستان ہر جگہ کسی نہ کسی قسم کے پرندے پائے جاتے ہیںتاہم پرندوں کی دنیا میںصحیح تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ موسموں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے۔لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہمارے اجرام فلکی کے اندر ایک وقت میں 100000اور200000کی تعداد میں بالغ یا کم عمر پرندے ہوتے ہیں۔

موسموں میں تبدیلی کے ساتھ ہی پرندے نقل مکانی کرنا شروع کرتے ہیں، گرم علاقوں سے ٹھنڈے علاقوں کی طرف اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔چترال میںموسم بہار کے شروع ہوتے ہی مختلف پرندے نمودار ہوتے ہیں۔مارچ سے شروع ہوکر جون تک چترال کی خوبصورتی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور اس دوران یہاں طرح طرح کے پرندے دوسری جگہوں سے نقل مکانی کرکے آتے ہیں جو یہاں کے طبعی حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ مارچ سے یہاں پہاڑوں پر سے برف پگھلنا شروع ہوتا ہے ۔ پہاڑوں پر سے برف پگھلتے ہی پرندوں کے ساتھ ساتھ یہاں جنگلی بکریاں بھی نمودار ہوتے ہیں جو یہاں کے جنگلات کی حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔یہاں کے پہاڑوں پر کستوری ہرن، آئی بیکس (کوہ ایلپس کا بکرا)،ریچھ، اور شکار ہونے والے پرندوں میں تیتر، چکور،فاختہ، شامل ہیںاور آبی جانوروں میں بطخیں، بگلے، اور دوسرے آبی پرندے شامل ہیں۔اس موسم میںبے رحم اور بے دل شکاری حضرات کی بے رحمی بھی اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ان ننے مننے پرندوںکو یہ لوگ اپنی بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔پہاڑی جانوروں کے شکار کے لئے بھیس بدل کریہ لوگ نماز فجر سے پہلے شکار گاہ کی طرف نکل جاتے ہیںجب لوگ اللہ تعالی کا شکر بجا لانے کے لئے اپنی اپنی عبادت گاہوں کو جا رہے ہوتے ہیں ۔جہاں یہ جانور اپنی خوراک کی تلاش میں آتے ہیں ان جگہوں پر شکاری حضرات خندقیں کھود کر رکھتے ہیں، اور ان کے آنے کا وقت بھی ان کو معلوم ہوتا ہے۔ چہرہ پر جانوروں کا ماسک پہن لیتے ہیں، جس کی وجہ سے جانور اپنے بچائو کی بھی کوشش نہیں کرتے ہیںاور آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ آبی جانوروں کے شکار کے لئے مصنوعی تالاب بنائے جاتے ہیں۔جس کے ارد گرد مضبوط بندھ بندھا ہوتاہے، اور مضبوط دیوار ہوتی ہے۔عام طور پر یہ جانور صبح اور شام کے وقت سفر کرتے ہیں، راستے میں آئے ان تالابوںمیں ، جیسے کہ ان کی فطر ت میں تیرنے کا شوق ہوتا ہے، اپنے شوق کوپورا کرنے کے لئے ان تالابوں میں آتے ہیں، اور یوں شکاری پہلے سے وہاں موجود ہوتا ہے اس پر فائر کھول دیتاہے۔یوں یہ لوگ اپنے شوق اور بھوک کو کم کرنے کے لئے قدرت کے ان حسین نظاروں کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو زمانہ قدیم جس وقت منظم کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنے کا رواج نہیں تھا یا یوں کہیں کہ لوگ اس فن سے نا آشنا تھے۔ جبکہ اب اس دور میں انسان کو اپنی بھوک مٹانے کے لئے ہزاروں نعمتیں دستیاب ہوں،اور وقت گزارنے اور درجنوں دورے ذرائع ہوں وہاں ان جانوروں کا قتل عام اور نسل کشی قدرت سے بغاوت کے مترادف ہے۔

ان قانوں شکن لوگوں کے سامنے حکومت کا قانون بھی بے بس نظر آتا ہے۔اور اس سے بڑھ یہ کہ حکومت ان کو تحفظ دینے کے لئے ان کو اسلحہ لائسنس جاری کرتی ہے جس کے بل بوتے وہ کھلے عام شکار کرتے ہیں، اور وہ جن کے پاس لائسنس نہیں ہے ان کو بھی کوئی روکنے والا نہیں ۔حکومت نے جو رکھوالی کرنے والے مقرر کیا ہے وہ تو خود شکار کے مشتاق ہوتے ہیں۔ وہ بلا کسی کو کیا روکیںگے ۔اپریل سے لیکر مئی کے مہینے تک فاختوں کی پرواز ہی ان لوگوں کو گوارا نہیں۔ ہوا میںپرواز کرتے ہی اڑا دیتے ہیں۔صبح صادق سے فائرنگ کی آوازیںآتی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ دو دشمنوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ قدرت کے ان حسین نمونوں کو ختم ہونے سے بچائیں ،اور ان ظالموں کو باز رکھنے کے لئے سخت سے سخت اقدامات کریں، اورقانونی اور غیر قانونی شکار کرنے والوں کے لئے سزا مقرر کریں ، اور واقعی میں ان لوگو ں کو سزائیں دیں تاکہ ہمارے ماحول کی حسن برقرار رہے اور لوگوں میںشعور اجاگر کیا جائے کہ جانوروں کو مار نا صرف گناہ ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ جنگ ہی نہیں بلکہ اپنے ماحول کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز انسان کی خاطر پیدا کی ہے، کچھ کو انسان خوراک کے طور پر استعما ل کرتا ہے ، اور کسی سے باربرداری کا کام لیتاہے ۔ گوشت حاصل کرنے کے لئے گائے، بیل، بکریاں، بھیڑ،مرغیاں اور دوسرے پالتوں جانور شامل ہیں جن کے ساتھ ہم محنت کرتے ہیں ، وہ ہمارے لئے حلال ہیں۔اور بہت سے ایسے جانور ہیں جو ہمارے ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں ، اور ہمیں ان سے دوسرے بہت سے فوائد حاصل ہیں۔ہم ان کو ماریں کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ نا شکری نہیں ہے؟

سیاحت ۔ چترال

دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک چترال 

afsar.kn@gmail.com از افسر خان چترالی 

یہ خو بصورت وادی اپنی خوبصورتی اور دل کش نظاروں کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں میں بے حد مشہور ہے۔ یہاں کی منفرد روایات سیاح کو بہت بھلی لگتی ہیں ۔ چترال کی حسین اودی سطح سمندرسے 370 فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ یہاں پر سیاح ہائیکنگ، مچھلی اور دوسرے جنگلی جانوروں کے شکار جیسے دلچسپ مشاغل سے لطف اندوز ہو تے ہیں ۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے 28 سال بعد، یعنی دسمبر 1970 ء تک چترال ایک خود مختار ریاست تھی۔ 1971ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق ہو ا اور اسکے بعد یہاں ترقیاتی کام شروع ہوئے۔ چترال پہنچنے کے لئے واحد زمینی راستہ لواری ٹاپ ہے۔ جس کا انحصار موسم پر ہے۔سردیوں میں یہ راستہ بالکل بند ہوتا ہے اور چھ ماہ تک چترال کا رابطہ ملک کے دوسرے حصوں سے منقطع رہتا ہے۔ لواری ٹاپ دیر اور چترال کے درمیان واقع ہے اور یہ دشوار ترین گزر گاہ جون سے کر نومبر تک آمد روفت کے لئے کھلی رہتی ہے۔

پشاورسے چترال تک کا سفر چودہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ جبکہ فوکر جہاز میں یہ سفر پینتایس منٹ پر مشتمل ہے۔ مگر جہاز میں سفر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ سردیوں کے موسم میںیہاں شدید ترین سردی پڑتی ہے اور سردی سے بچائو کے لئے یہاں کے غریب عوام لکڑی جلاتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہاں کے جنگلات کو شدید خطرہ لاحق ہے اور کٹائو کا یہ سلسلہ اسی طرح جار ی رہا تو توقع ہے کہ جنگلات بہت جلدختم ہو جائیں گے۔ قدرتی حسن کی دولت سے مالا مال ان علاقوں میں غر بت اور پس ماندگی سیاح کو غم زدہ کر دیتی ہے۔ چترال میں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک ترچ میر چوٹی یہاں موجود ہے جس کی بلندی 7[L: 44]705 میٹر ہے۔ سیاح یہاں سے کوہ ہندودش کے بلند و بالا پہاڑی سلسوںکا بھی نظارہ کر سکتے ہیں ۔ چترال کی دل کش وادی میں بہتی ندیاں ، بلندیوں سے گرتے ہوئے خوبصورت آبشار، سرسبز باغات، پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات، لہلہاتے کھیت ،خوبصورت پرندے بکثرت نظر آتے ہیں۔

چترال کا یہ بے مثال حسن دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے اور وہ چند لمحوں کے لئے اپنی زندگی کے غموں اور پر یشانیوں کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ یہاں کے جنت نظیر نظارے سیاح کو ساری زندگی یاد رہتے ہیں ،بے مثال حسن کو دیکھ کر آنے والے قدرت کی صناعی کی داد دےئے بغیر نہیں رہ پاتے ۔ یہ ایسی وادی ہے جہاں جا کر زندگی چند لمحے اور جی لینے کیو جی چاہتا ہے کہ گو یا یہ حسین نظارے اوجھل نہ ہو جائیں اور یہ رنگین لمحات آنکھوں اور دل میں محفوظ کر لیی جائیں ۔ان سب خوش رنگینیوں کے ساتھ چترال کے سادہ لوح اور شرافت کی نعمت سے سرشاریہاں کے باشندوں کی مہمان نوازی اور برتائو سیاح کو ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔یہاں کے لوگ سیاحوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اور ان کو ضرورت کے وقت ہر قسم کی تعاون فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیاح دور دراز سے اس علاقے میں آتے ہیں، اور چترال دنیا کے چند اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔